کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 201
کے قریب پہنچ چکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ حملے کے لیے ان کی طرف بڑھا جائے یا انھیں مدینہ کی طرف آنے دیا جائے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے یہ تھی کہ ہم مدینہ سے نہ نکلیں بلکہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کریں۔ اگر وہ مدینے میں داخل ہوں تو مرد گلی کوچوں میں اور خواتین گھروں کی چھتوں سے ان پر حملہ آور ہوجائیں۔
دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھا تھا کہ آپ کی تلوار کند ہو گئی ہے، ایک گائے ذبح کی جارہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ میں داخل کر دیاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوارکے کند ہونے کی تاویل یہ فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے کوئی فرد شہید ہوجائے گا،اور گائے کی تاویل یہ کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ شہید ہو جائیں گے،اور زرہ سے مراد مدینہ ہے۔ [1]
بعض جوشیلے نوجوانوں نے اور بالخصوص ان لوگوں نے جو معرکۂ بدر سے پیچھے رہ گئے تھے ، یہ رائے دی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں دشمن کی جانب لے چلیں تاکہ وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم بزدل ہوگئے ہیں اور ان سے ڈر گئے ہیں۔
عبداللہ بن ابی نے کہا :اے اللہ کے رسول! مدینے میں ٹھہریے، ان کی جانب مت نکلیے،بخدا !ہم جب بھی مدینے سے دشمن کے خلاف نکلے ہیں وہ ہمیں نقصان پہنچا جاتاہے، اور جب بھی وہ ہمارے ہاں داخل ہو اہے، اسے ہم ہی نے نقصان پہنچایا ہے۔
انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر وہ رک کر ہماراانتظار کریں گے تب بھی انھیں
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍7,6۔