کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 200
دل ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں ،ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں۔‘‘ [1] اس منافق کے کلمات سے شرک وکفر اُجاگر ہوتا تھا کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتا،اس کی سزا سے اسے کوئی خوف نہیں، اور نہ وہ اس سے ثواب کی امید رکھتاہے۔ اس نے اُن لوگوں کو جو اللہ کے کمزور ترین بندے تھے، اپنا مضبوط سہارا، اپنی لڑاکا قوت اور اپنے بچاؤ کی ڈھال بنا لیا تاکہ اپنے کرتوتوں کے نتائج سے بچ سکے۔ افسوس! وہ کتنا برا انسان تھا؟ اس واقعے کے بعد ہر وہ مسلمان جو بھی عبداللہ بن ابی کی اصل حقیقت کو نہیں جانتا تھا اس پر اس کی حقیقت آشکارا ہوگئی،لوگوں کو اس کے کفر ونفاق کا علم ہوگیا، اور اس کے حواری بھی یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے سامنے بے نقاب ہوتے چلے گئے،ان کے اعمال اور ان کے اقوال ان کے خبث باطن کی بڑی واضح صورت بیان کرتے تھے۔ معرکۂ بدر کے بعد مسلمانوں کی یہودیوں اور منافقین کے ساتھ آویزش ختم نہیں ہوئی تھی کہ یہودِ مدینہ کی طرف سے کعب بن اشرف کی قیادت میں قریش مکہ کی طرف ایک وفد یہ پیغام لے کر گیا کہ ہم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف لڑائی میں متحد ہوجائیں۔[2] اس وفد میں ابوعامر بھی شامل تھا، وہ بہت بڑا فاسق تھا، زمانۂ جاہلیت میں اوس قبیلے کا سردار تھا، اس نے قریشیوں سے وعدہ کیا کہ اس کی قوم جب اسے مسلمانوں کے خلاف دیکھے گی تو ضرور اس کی طرف مائل ہو کر اس کی اطاعت کرے گی ،مکہ کے بڑے بڑے لوگوں اور سرداروں نے ان کی باتیں سنیں اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے خلاف اکھٹے نکلنے اور جنگ کرنے کا قرار نامہ طے کر لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے نکلنے کی خبر پہنچی اور معلوم ہوا کہ وہ لوگ وادی کے کنارے
[1] الاعراف7:179۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:2؍431۔