کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 199
حکم کے مطابق قلعے کا دروازہ کھولنا پڑا۔
اسی وقت منافقین کا سردارعبداللہ بن ابی بھی وہاں پہنچ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حق میں جھگڑنے لگا۔ اس نے کہا: اے محمد! میرے حلیفوں کے ساتھ احسان کریں۔ کیونکہ یہ لوگ بنو خزرج کے حلیف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے میں ذرا تاخیر کی۔ وہ پھر بولا: اے محمد! میرے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں۔ آپ نے پھر جواب نہ دیا اور منہ موڑلیا، لیکن اس نے آگے بڑھ کر آپ کی زرہ تھام لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑدو۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آپ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’تمھارا بر اہو،مجھے چھوڑ دو۔‘‘
وہ کہنے لگا: نہیں ،بخدا کبھی نہیں! میں اس وقت تک آپ کو نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ میرے چار سو بغیر زرہ کے اور تین سو زرہ پوش حلیفوں پر رحم نہ فرمائیں،ان لوگوں نے آج تک مجھے ہر سیاہ و سرخ سے بچایاہے،آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)چاہتے ہیں کہ انھیں ایک ہی دن میں آن کی آن میں کاٹ ڈالیں۔اللہ کی قسم! مجھے دوائر زمانہ سے ڈر لگ رہاہے۔
بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ، وہ تمھارے ہیں۔‘‘ [1]
بلاشبہ انسان اس منافق کے حالات سے بڑا متعجب ہوتا ہے کہ اسلام کا نور اس کے دل تک کیوں نہیں پہنچ پایا، حالانکہ وہ تو آسمان سے زمین پر نازل ہورہا تھا لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ در اصل اللہ تعالی کی مشیت ہی ایسی تھی جس نے اسے اندھا کر دیا اور اس کے دل کے نور کو بجھا دیا، وہ بالکل قرآن کی اس آیت کے مطابق ہو گیا:﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا ﴾’’ان کے
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:2؍330۔