کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 184
امیہ بن خلف اپنی قوم کی مجلس شوری میں ابو جہل بن ہشام، ولید بن مغیرہ اور دیگر کفار کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے لگتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اس بدسلوکی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف ہوتی تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ دکھ دیتے تھے۔ اس صورتحال پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
﴿ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾
’’اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا، پس مذاق کرنے والوں ہی کو اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مظالم پر صبر کرتے تھے اور ان تمام باتوں کو برداشت کرتے تھے جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پربہتان باندھنے کے لیے گھڑتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسل اور انبیاء کی زندگیوں سے سبق حاصل کرتے تھے جو آپ سے پہلے گزر چکے تھے، انھیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کی نگہبانی پر مکمل اعتماد اور بھروسا تھا کہ ان کا مذاق اڑانے والوں کے لیے اسی طریقے کے مطابق ایک دن مقرر ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے زمانے کے سرکشوں کے لیے مقرر کیا تھا جنھوں نے اللہ کے رسولوں کو ایذا پہنچائی اور انھیں برا بھلا کہا تھا۔ قرآن کریم ہمارے لیے ان کافروں میں سے اکثر کی ہدایت کا نقشہ کھینچتا ہے۔
اللہ کے نبی سیدنا نوح علیہ السلام کے ساتھ بھی ٹھٹھا مذاق کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی
[1] الانبیاء 21 :41۔