کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 173
کے سردار تھے، اس صورت حال سے بہت شرمندہ ہوئے۔ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے تھے؟ یقیناً آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کو روکنے کے لیے قریشی کیا کچھ کر رہے تھے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کسی حد پر نہیں ٹھہر رہی تھی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے کسی وعدے اور وعید کی پروا نہیں کر رہے تھے۔ ان حالات میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے قریشیوں کی باقی ماندہ عزت محفوظ رہ سکے اور جو سردار ان کے ہاتھ میں ہیں وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول نہ کر سکیں۔ چنانچہ امیہ بن خلف اپنے ساتھیوں اسود بن عبدالمطلب ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ انھوں نے کہا: اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! آؤ، ہم عبادت کرتے ہیں جس کی تم عبادت کرتے ہو اور تم بھی ان کی عبادت کرو جن کی ہم عبادت کرتے ہیں۔ اس طرح ہم اور آپ ایک ہی معاملے میں شریک ہو جائیں گے۔ عبادت میں ہمارا اور آپ کا معاملہ مشترکہ ہوجائے گا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معبود ہمارے معبودوں سے بہتر ہوا تو ہم اس کی بھی عبادت کرنے والے ہوں گے اور اگر ہمارے معبود بہتر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں کی عبادت سے حصہ پا لیں گے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں قرآن کی سورۂ کافرون نازل کی : ﴿ قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ، وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ، وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ ،وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ، لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کروں گا اس کی جس کی تم عبادت