کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 172
میں نے وہاں ایسا کلام سنا ہے کہ اللہ کی قسم! اس جیسا کلام میں نے کبھی نہیں سنا۔ اللہ کی قسم! نہ وہ اشعار ہیں، نہ جادو ہے نہ وہ کاہنوں کی باتیں ہیں۔ اے قریش کی جماعت! میری بات مانو، اس آدمی اور اس کے مشن کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور تم اس سے الگ ہو جاؤ۔ اللہ کی قسم! اس کے اس کلام کی بدولت جو میں نے سنا ہے ایک بہت بڑی خبر رونما ہونے والی ہے۔ اگر اہل عرب نے اسے ہلاک کر دیا تو تمھیں تمھارا مطلوب حاصل ہو جائے گا اور اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی بھی درحقیقت تمھاری ہی بادشاہی ہے، اس کی عزت تمھاری عزت ہے۔ اس صورت میں تم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہو جاؤ گے۔ وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم اے ابو ولید! اس نے اپنی زبان کے ذریعے تجھ پر جادو کر دیا ہے۔ عتبہ کہنے لگا: مجھے جو کچھ کہنا تھا، کہہ چکا۔ اس معاملے میں میری رائے تو یہی ہے۔ اب یہ تم پر موقوف ہے، جیسے تمھارا دل چاہے ویسا ہی کرو۔ قریش اس وقت کیا کرنے کی پوزیشن میں تھے؟ کیا ان میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اسلام کو پھیلنے سے روک دیتے؟ یقیناً یہ نا ممکن تھا۔ اسلام مکہ مکرمہ میں پھیلنا شروع ہو گیا، عورتیں اور مرد اسلام میں داخل ہونے لگے، آس پاس کے قبائل میں اسلام کا چرچا پھیلنے لگا۔ مختلف قبائل سے لوگ فرداً فرداً اور وفود کی شکل میں آنے لگے تا کہ وہ اس نئے چشمے سے سیراب ہو سکیں۔ کمزور مسلمان اپنا دین بچا کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں عزت بھی تھی، طاقت بھی اور امن اور اطمینان بھی تھا۔ وہاں کا بادشاہ نیک دل تھا، نورِ ایمان اُس کے دل میں داخل ہو چکا تھا، اس کی بصیرت نے حق کے انوار سے پردہ ہٹا دیا تو اس نے ہدایت پا لی۔ امیہ بن خلف اور اس کے ساتھی جو قریش