کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 170
اُمیہ کہنے لگا: اے ابو ولید! ٹھیک ہے، تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے گفتگو کرو۔ چنانچہ عتبہ وہاں سے اٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: اے میرے بھتیجے! یقیناً تم ہم ہی میں سے ہو۔ میں خاندان میں تمھارے مقام و مرتبے سے باخبر ہوں اور نسبی لحاظ سے بھی تمھارا بڑا درجہ ہے۔ تم اپنی قوم کے پاس بہت بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس کے ذریعے تم نے ان کے درمیان پھوٹ ڈال دی ہے، ان کے عقلمندوں کو بیوقوف بنا دیا ہے، ان کے معبودوں کو رسوا کر دیا ہے، ان کے دین کا مذاق اڑایا ہے اور اپنی قوم کے آباؤ اجداد کو کافر قرار دے دیا ہے۔ اب تم میری بات غور سے سن لو۔ میں تمھارے سامنے چند امور پیش کرتا ہوں، غور کر لو، ممکن ہے ان میں سے تمھیں کچھ امور پسند آجائیں اور تم انھیں قبول کر لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابو ولید! آپ کہیے، میں آپ کی بات سنوں گا۔‘‘ وہ کہنے لگا: اے میرے بھتیجے! تم جو دعوت لے کر آئے ہو، اُس سے اگر آپ کا مقصد مال جمع کرنے کا ہے تو ہم تمھارے لیے اپنے اموال سے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار بن جاؤ گے۔ اگر اس سے تم سرداری چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا سردار مقرر کرتے ہیں، تمھارے بغیر ہم کسی کام کا فیصلہ نہیں کریں گے، اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگر یہ دعوت اس و جہ سے ہے کہ تم آسیب زدہ ہو اور اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تو ہم تمھارا علاج کراتے ہیں، اس علاج کے لیے ہم اپنا مال خرچ کریں گے یہاں تک کہ تم تندرست ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گفتگو غور سے سن رہے تھے۔ جب عتبہ اپنی گفتگو مکمل کر چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابو ولید! کیا آپ کی بات مکمل ہو گئی ہے؟‘‘ اس