کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 169
سے کہا کہ تو اس مسکین کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتا؟ آخر کب تک یہ تشدد چلتا رہے گا؟ امیہ کہنے لگا: تو نے ہی تو اسے خراب کیا ہے۔ اگر تجھے اتنا ہی احساس ہے تو اسے بچا لے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں اسے تیرے ظلم سے بچاتا ہوں، میرے پاس ایک طاقتور حبشی غلام ہے اور وہ تیرے دین پر قائم ہے، میں بلال رضی اللہ عنہ کے بدلے تجھے وہ حبشی غلام دیتا ہوں۔‘‘ امیہ کہنے گا: مجھے منظور ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے وہ غلام دے دیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو امیہ کے پنجۂ ستم سے چھڑا کر آزاد کر دیا۔[1] سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آزاد ہو گئے، انھوں نے کلمہ حق کھل کر بیان کرنا شروع کر دیا اور لوگ دین اسلام میں داخل ہونے لگے۔ دعوتِ حق پر لبیک کہنے والوں کی کثرت کی وجہ سے دارِ ارقم تنگ پڑنے لگا۔ غم و غصے نے امیہ بن خلف اور اللہ کے دین کو نظر انداز کرنے والوں کے کلیجے کھا لیے، وہ غصے سے بھڑک اٹھے کیونکہ ان کے راستے تنگ ہونے لگے تھے، وہ دیکھ رہے تھے کہ اسلامی لشکر میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کا لشکر دن بدن گھٹتا جا رہا ہے۔ ایک دن امیہ بن خلف اپنی قوم کی مجلس شوری میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا بھائی ابی بن خلف اور عتبہ بن ربیعہ بھی موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اکیلے مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عتبہ نے ان دونوں سے کہا: کیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اسے کچھ باتوں کی پیش کش نہ کروں؟ ممکن ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ کچھ چیزوں کو قبول کر لے اور ہم اسے وہ دے دیں تو وہ ہمارے بتوں کی مخالفت سے باز آ جائے گا۔
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍340۔