کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 168
ذکر بھی ضرور ہوتا ہے کیونکہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ان غلاموں میں سے ہیں جن کے مالک اللہ کے دشمن تھے۔
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دعوتِ اسلام کو قبول کر لیا اور ان کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھا، یہی وہ چیز تھی جس نے امیہ بن خلف کی عقل کو ختم کردیا اور وہ انسانیت سے باہر ہو گیا، اور انسانیت سے درندگی کی طرف منتقل ہو گیا۔ جب سخت دوپہر ہو جاتی تو وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو وادیٔ بطحاء میں لے جاتا اور انھیں کڑکتی دھوپ میں کمر کے بل لٹا دیتا، پھر غلاموں کو حکم دیتا کہ بڑا سا پتھر اٹھا کر لاؤ اور وہ پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا کر تا تھا۔ پھر ان سے کہتا کہ تو اسی حالت میں رہے گا یہاں تک کہ تو مر جائے یا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا انکار کر دے اور لات و عزیٰ کی عبادت کرنے لگے۔ لیکن سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اس ہولناک آزمائش میں بھی ’’أحد أحد‘‘ ’’اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔‘‘ ہی کہتے رہتے تھے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے روایت بیان کی کہ وہ اور ورقہ بن نوفل سیدنا بلال کے پاس سے گزرتے تو دیکھتے کہ انھیں ہولناک اذیت دی جا رہی ہے اور وہ ’’أحد، أحد‘‘ کی صدا لگا رہے ہیں۔ ورقہ بن نوفل یہ سن کر کہتے: ’’اللہ کی قسم! اے بلال! اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔‘‘ پھر وہ امیہ بن خلف اور بنی جمح میں سے اس کے مدد گاروں کی طرف متو جہ ہوتے اور فرماتے: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو میں اسی حالت میں اسے حَنان بنا دوں گا، یعنی اس کی قبر کو قربان گاہ اور رحم طلب کرنے کی جگہ قرار دے دوں گا۔
ایک دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے، امیہ بن خلف سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر زبردست تشدد کر رہا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گھر بھی بنو جمح کے محلے میں تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف