کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 167
شریک ہوا کہ اس نے اپنے اسلحہ کے ذریعے مدد کی۔
جب حنین کا معرکہ ختم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مال غنیمت میں سے بہت زیادہ حصہ دیا۔ صفوان یہ منظر دیکھ کر کہنے لگا: میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ ایسا برتاؤ صرف نبی ہی کر سکتا ہے۔ وہ اسی وقت مسلمان ہو گیا اور مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہا۔
امیہ بن خلف کے بیٹوں میں سے ایک ربیعہ بن امیہ بھی تھا جو فتح مکہ والے سال (8ہجری) میں مسلمان ہو گیا تھا۔ اس نے ایک خواب دیکھا جو اس نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سنایا، وہ کہنے لگا: ’’میں نے دیکھا کہ میں ایک سرسبز و شاداب وادی میں ہوں، پھر میں وہاں سے خشک بنجر وادی کی طرف چلا گیا اور پھر جب میں بیدار ہوا تو میں بنجر وادی ہی میں تھا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے تعبیر بتائی کہ تو ایمان لے آئے گا، پھر کافر ہو جائے گا اور تو کفر ہی پر مرے گا۔ ربیعہ کہنے لگا: میں نے ایسا خواب نہیں دیکھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرے لیے اس کا فیصلہ کر دیا گیا ہے جیسییوسف علیہ السلام سے خواب پوچھنے والوں کے متعلق فیصلہ کر دیا گیا تھا، انھوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم نے تو ایسا خواب ہی نہیں دیکھا۔ تو ان کے جواب میں یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:
﴿ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ﴾
’’اس کام کا فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو۔‘‘ [1]
ایک مرتبہ اس نے شراب پی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر حد جاری کی اور اسے جلا وطن کر کے خیبر بھیج دیا، یہ وہاں سے سر زمین روم چلا گیا اور نصرانی (عیسائی) ہو گیا۔
جب سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے ساتھ امیہ بن خلف کا
[1] یوسف 12 :41۔