کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 166
میں ایک صفوان بن امیہ بھی تھا۔
إِنَّکِ لَوْ شَھِدتِّ یَوْمَ الْخَنْدَمَۃ
إِذْ فَرَّ صَفْوَانُ وَ فَرَّ عِکْرِمۃ
’’اگر تو یوم خندمۃ[1] میں حاضر ہوتی، جب صفوان اور عکرمہ بھاگ گئے تھے۔‘‘
وَاسْتَقْبَلَتْنَا بِالسُّیُوفِ الْمُسلِمَہ
یَقطَعْنَ کُلَّ سَاعِدٍ وَ جُمْجُمَہ
’’اور اس (خندمہ) نے ہمارا استقبال بے یارو مددگار کر دینے والی تلواروں کے ساتھ کیا جو ہر بازو اور کھوپڑی کو کاٹتی جا رہی تھیں۔‘‘ [2]
جب عمیر بن وہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صفوان بن امیہ کے لیے امان لے لی تو صفوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا۔ پھر وہ غزوۂ حنین میں اس حالت میں شریک ہوا کہ یہ کافر تھا اور اس کی بیوی مسلمان تھی جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے جنگ میں استعمال کرنے کے لیے ہتھیار[3] عاریتاً طلب کیے تو اس نے کہا: میں ہتھیار خوشی سے دوں یا ناخوشی سے دوں؟ یعنی میرے ہتھیار غصب کر لیے جائیں گے یا واپس دے دیے جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوشی سے دو، یہ معاملہ عاریتاً ہے، ضائع ہونے کی صورت میں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ صفوان نے ہتھیار پیش کر دیے اس طرح یہ غزوہ حنین میں اس طریقے سے
[1] ’’خندمۃ‘‘ مکہ مکرمہ کے قریب وہ مقام ہے جہاں فتح مکہ کے دن سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور قریش میں جنگ ہوئی، کچھ قریشی قتل ہوئے اور کچھ بھاگ نکلے تھے۔
[2] الاستیعاب، ص: 365۔
[3] یہ نہایت مالدار شخص تھا اور اس کے پاس جنگی ہتھیار وافر مقدار میں موجود تھے۔