کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 165
ابی بن خلف نے صرف زبانی کلامی دشمنی، بد تمیزی اور عمومی لڑائیوں ہی پر اکتفا نہیں کیا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم کے طور پر جاری تھیں بلکہ اس نے ان جنگوں میں بھی باقاعدہ شرکت کی جو قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مسلمانوں کے خلاف لڑی تھیں۔
جب غزوۂ احد میں مسلمانوں کے قدم ڈگمگا گئے، ان کی جمعیت متفرق ہو گئی، مجاہدین کی بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے تو ابی بن خلف پہاڑی کے اس حصے میں آیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے، وہ پوچھنے لگا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ اگر وہ بچ گئے تو میں نہیں بچ سکوں گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم سے کوئی اس پر حملہ کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو (قریب آنے دو)۔‘‘ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن صمہ سے نیزہ لیا، پھر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور نیزہ اس کی گردن میں دے مارا جس کی و جہ سے وہ گھوڑے سے کئی مرتبہ گرا اس طرح یہ اللہ کا دشمن مکہ مکرمہ واپس جاتے ہوئے راستے میں مر گیا۔
یہ امیہ بن خلف کا حقیقی بھائی تھا۔ اس کے بیٹے بھی دعوتِ توحید سے بغض رکھتے تھے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے میں اپنے باپ کے طریق پر تھے۔
اس کے بیٹوں میں ایک صفوان بن امیہ بھی تھا جو فتح مکہ کے دن اسلامی لشکر کے رعب و دبدبہ سے بھاگ گیا تھا۔حماس بن قیس نے (فتح مکہ کے دن) قریش کی گھبراہٹ اور ان کے شاہسواروں کے بھاگ نکلنے کا نقشہ اس شعر میں کھینچا ہے، ان شاہسواروں