کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 140
پریشانی، بوجھ اور سخت متفکر رہنے کی حالت محسوس کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا اور دریافت فرمایا: ’’تم نے کھانا پینا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میں نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اسے پورا کر سکوں گا یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے ذمے صرف کوشش کرنا ہے۔‘‘
اس بات سے انھیں بہت اطمینان ہوا۔ عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں اس سلسلے میں کچھ کہنے کی اجازت دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس معاملے میں جو تمھارا دل چاہے کہہ لینا ،اس کی تمھیں اجازت ہے۔‘‘ [1]
امام طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کعب بن اشرف کے قتل کا منصوبہ محمد بن مسلمہ، سلکان بن سلامہ جو کعب بن اشرف کا رضاعی بھائی بھی تھا، عباد بن بشر بن وقش اور حارث بن اوس بن معاذرضی اللہ عنہم ، ان پانچ حضرات نے مل کر تیار کیا۔[2] اس میں یہ احتیاط ملحوظ رکھی گئی کہ کسی طرح کا کوئی شور و غل اور ہنگامہ نہ ہو تاکہ قوم میں جنگ نہ بھڑک اٹھے۔ کیونکہ اس وقت صرف کعب بن اشرف کا قتل مقصود تھا، مسلمان خون خرابا کرنا اور لاشیں گرانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے مابین طے پایا کہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی سلکان بن سلامہ کو اس کے پاس بھیجا جائے۔
سلکان بن سلامہ کعب بن اشرف کے پاس گئے۔ کچھ دیر اس سے باتیں کیں، پھر ایک دوسرے کے سامنے اشعار پڑھنے لگے، کیونکہ سلکان بن سلامہ بھی ایک ماہر شاعر تھا۔ تھوڑی دیر بعد سلکان نے کہا: تیرا ناس ہو اے ابن اشرف! میں تیرے پاس ایک
[1] صحیح البخاري، حدیث: 4037، وتاریخ الطبري:2؍489، والبدایۃ والنھایۃ:4؍7۔
[2] صحیح البخاري، حدیث:4037، وتاریخ الطبري:2؍489۔