کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 132
(پاگلوں جیسی) کوئی آواز نہیں آتی، نہ ان کی طرح اسے وسوسے آتے ہیں اور نہ وہ ایک کام کو دوسرے میں خلط ملط کرتا ہے۔ اے قریش کی جماعت! اپنے معاملے پر غور و فکر کرو، اللہ کی قسم! تمھارے پاس ایک بہت بڑا حکم آ چکا ہے۔
یہ وہ سچی باتیں ہیں جن میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ قریش کے سرکردہ افراد کے دلوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی ان الزامات کی تصدیق نہیں کی جو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوپتے تھے، حالانکہ وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بخوبی جانتے تھے۔ ذرا دیکھیے! کبھی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر بتلاتے، کبھی جھوٹا اور کبھی مجنوں کہہ دیتے۔ یقیناً یہ سب دعوے، گمراہی، لڑائی اور دھوکہ بازی کے وہ ہتھیار ہیں جن میں ہر زمانے کے بڑے اور کرپٹ لوگ ماہر ہوتے ہیں، پھر وہ انھیں اپنے آپ کو اور اپنے مراکز کو حق کے خطرے سے بچانے کے لیے ڈھال بناتے ہیں اور اپنے باطل عقیدے کو منوانے کے لیے جھوٹ، دھوکہ بازی اور لڑائی کا سہارا لیتے ہیں۔
یقیناً ابو لہب کا یہ رویہ ہمارے موجودہ زمانے میں حق کو نہ ماننے والوں جیسا تھا یا تعبیر میں اگر تھوڑا سا آگے بڑھیں تو اسے میڈیا کا کردار کہا جا سکتا ہے۔ کیا کچھ اس میڈیا میں نہیں ہے کہ حاکم وقت کی سیاست کو چمکانے، غریب اور مجبور عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے گمراہ کن اورغلط باتوں کو پھیلانا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ یقیناً یہ گھٹیا طریقہ جسے حکمران ملک و قوم کے معاملات میں برتتے ہیں اور عوام کی مثبت سوچوں کو ماؤف کرنے اور ان کے احساسات کو ختم کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ابولہب بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا رہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی وفد یا جماعت سے