کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 131
جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم مجنون اور آسیب زدہ نہیں تھے، نہ شاعری کے رموز جانتے تھے، نہ اللہ کے فرمان کا مصداق ہونے کی و جہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشعار کہہ سکتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ﴾ ’’اور ہم نے انھیں شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لائق ہے۔‘‘ [1] جب حقیقت یہ ہے تو ابولہب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیوں نہ کیا؟ کیا وہ یہ سمجھتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں وہ کاہنوں کا کلام یا جادو گروں کی بے نبیاد باتیں ہیں؟ نضر بن حارث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے دشمنوں میں بڑا ذہین اور تجربہ کار شمار کیا جاتا تھا، کہتا ہے: اے قریش کی جماعت! اللہ کی قسم! یقیناً تم میں اللہ کا ایک امر آچکا ہے جسے تم نے ابھی تک اپنی چالوں کی و جہ سے قبول نہیں کیا۔ یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھارا وہ جوان ہے جس نے زندگی بھر کسی کو دھوکہ نہیں دیا، اس نے تمھارے مابین اپنی جوانی گزاری، یقیناً وہ تم میں سب سے زیادہ امانت دار اور پسندیدہ انسان ہے۔ سچائی میں اپنی مثال آپ ہے اور وہ تمھارے پاس ایک پیغام لے کر آیا تو تم نے کہہ دیا کہ وہ جادو گر ہے، اللہ کی قسم! وہ جادو گر نہیں ہے، ہم جادو گروں، ان کی جھاڑ پھونک اور گرہ بندی کو جانتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ کاہن ہے، اللہ کی قسم! وہ کاہن نہیں ہے، ہم نے کاہنوں اور ان کی بڑبڑ خوب دیکھی اور سنی ہے۔ تم نے کہا کہ وہ شاعر ہے، اللہ کی قسم! وہ شاعر بھی نہیں ہے، ہم نے اشعار کی تمام اقسام کو سنا ہے اور ان کے چھوٹے بڑے قافیوں سے خوب واقف ہیں۔ تم نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ مجنون ہے، پاگل ہے۔ اللہ کی قسم! وہ دیوانہ نہیں ہے، ہم نے پاگلوں کو دیکھا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے سے تو
[1] یٰسٓ 69:36۔