کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 121
محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کا گمان ہے کہ وہ آگ میں ہیں۔ ابو لہب نے دوبارہ سوال کیا۔ اے محمد! کیا عبدالمطلب کو آگ میں داخل کر دیا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس دین پر عبدالمطلب فوت ہوئے، اس دین پر جو بھی مرے گا وہ آگ میں داخل ہو گا۔‘‘ ابو لہب نے کہا: اللہ کی لعنت ہو، اللہ کی قسم! تجھے راحت گوارا نہیں، اب میں ہمیشہ تیرا دشمن رہوں گا، تو سمجھتا ہے کہ عبدالمطلب آگ میں ہے۔ اس کے بعد ابولہب نے قریش کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی کرنا شروع کر دی۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر گئے لیکن ابو لہب اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے باز نہ آیا حتی کہ غزوۂ بدر پیش آگیا، قریش بھرپور انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے نکلے، جو خود نہ نکل سکا، اس نے اپنی جگہ کسی کو تیار کر کے بھیجا، ابو لہب انھی لوگوں میں سے تھا، وہ خود نہ نکل سکا، اس نے عاصی بن ہشام کو اپنی طرف سے بھیجا تاکہ وہ اس کی جانب سے اس پہلے معرکے میں لڑے جس میں جنگ کی چکی کفر کے سرغنوں اور اہلِ ایمان کے لشکر کے درمیان گھومے گی۔[2] ابو لہب روزانہ کعبہ میں بیٹھ کر صبح شام آنے والوں سے جنگ کے متعلق معلومات حاصل کرتا حتی کہ وہ دن بھی آگیا کہ جب قریش کے بھاگے ہوئے دستے مکہ مکرمہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع کہتے ہیں کہ ان دنوں میں عباس بن عبدالمطلب کا غلام تھا۔ میں انتہائی کمزور تھا اور لکڑی کے بغیر پروں والے تیر بنایا کرتا تھا۔ اللہ کی قسم! میں زمزم کے کنویں کے پاس خیمے میں بیٹھا تیر بنا رہا تھا، ام فضل بھی میرے پاس بیٹھی تھیں اور ہم مشرکین کی شکست کی خبر سن کر خوش ہو رہے تھے کہ ابولہب
[1] البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر:3؍134، بتصرف۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:2؍29۔