کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 120
نکلتے۔ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی تکالیف سے دو چار کیا تھا جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ابو لہب کو اس صورت حال کی اطلاع ملی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد! مجھے لات کی قسم! ابو طالب کی وفات کے بعد اب جب تک میں زندہ ہوں تم تک کسی دشمن کو پہنچنے نہیں دوں گا۔
ایک دن ابن غیطلہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ دیے۔ ابو لہب اس کی طرف بڑھا اور اسے عبرتناک سزا دی، وہ پشت پھیر کر چِلّانے لگا: اے قریش کی جماعت! ابو عتبہ بے دین ہو گیا ہے۔ قریش کے سردار ابولہب کے پاس جمع ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ابولہب نے کہا: میں نے عبدالمطلب کے دین کو نہیں چھوڑا، میں تو اپنے بھتیجے کی مدد کر رہا ہوں کہ اس پر ظلم نہ کیا جائے تا کہ یہ جس کام کا ارادہ رکھتا ہے وہ کرے۔ قریشی کہنے لگے: تو نے بہت اچھا کیا، بہت خوب کیا، تو نے صلہ رحمی کی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافی دن اسی طرح امن و امان سے آتے جاتے رہے، کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنا۔
جب قریش نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب کھل کر اپنے دین کی دعوت دینے لگے ہیں اور انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے تو ان کے سرداروں نے ابو لہب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزار کرنے کے بارے میں غور و فکر کیا۔ عقبہ بن ابی معیط اور ابو جہل ابولہب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کیا تیرے بھتیجے نے تجھے بتایا ہے کہ عبدالمطلب کا ٹھکانا کہاں ہے؟ ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہنے لگا: اے محمد! عبدالمطلب کا ٹھکانا کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ اپنی قوم کے ساتھ ہیں۔‘‘ ابو لہب نے انھیں آکر بتلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ہیں۔ وہ دونوں کہنے لگے: