کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 118
اللہ نے عتبہ اور معتب کے حق میں آپ کی دعا قبول فرمائی جس کے نتیجے میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور وہ بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات بھی یقینی طور پر ثابت ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کے جواب میں فرمائی تھی جس وقت انھوں نے قوم پر عذاب اتارنے کی اجازت مانگی اور کہا کہ ان کو زمین میں دھنسا دیا جائے یا ایسی جگہ سے ان پر عذاب چھوڑا جائے کہ ان کو پتہ بھی نہ چلے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جبرئیل! ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا کردے جو اللہ کو معبود مانیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اقرار کریں۔ اے اللہ میری قوم کو ہدایت نصیب فرما، یہ لوگ مجھے نہیں جانتے۔‘‘ [1] حمزہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ابو لہب کے دونوں بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں شریک ہوئے۔ اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس دن ثابت قدم رہے ان میں یہ دونوں بھی شامل تھے۔ اس غزوے میں معتب کی ایک آنکھ بھی زخمی ہوئی۔[2] ابولہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی تکالیف دیں، کتنی کڑوی کسیلی سنائیں، کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیک نامی کو ختم کرنے کی کوشش کی، کتنے مواقع پر بچوں کو ابھار کر کھڑا کرتا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیں اور چھوٹے بڑوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متنفر کرتا لیکن اللہ نے اسی کے بیٹوں کو دین اسلام کی آبیاری کے لیے چن لیا۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں، مجھے حسین بن عبداللہ نے بتایا کہ میں نے ربیعہ بن عباد الدیلی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں بالکل آغازِ جوانی میں اپنے باپ کے ساتھ منیٰ
[1] صحیح البخاري، حدیث: 3231، وصحیح مسلم، حدیث: 1795۔ [2] الطبقات الکبرٰی لابن سعد:4؍60۔