کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 117
ابو لہب کے دو بیٹے عتبہ اور معتب تھے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے والد محترم عباس رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تو مجھ سے فرمانے لگے: ’’اے عباس! تیرے بھتیجے عتبہ اور معتب دکھائی نہیں دے رہے وہ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ اُن مشرکینِ قریش کے ساتھ ہیں جو علیحدہ ہو گئے۔ پھر میں سوار ہو کر ان کے پاس گیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں بلا رہے ہیں تو وہ دونوں جلدی سے سوار ہو کر میرے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پکڑے اور ملتزم کے پاس تشریف لے گئے (ملتزم حجر اسود اور باب کعبہ کی درمیانی جگہ کا نام ہے) وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر اللہ کے حضور دعا کی، پھر لوٹ آئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے عرض کی: اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اے اللہ کے رسول! میں آپ کے چہرے پر خوشی دیکھ رہا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، ایسا ہی ہے میں نے اپنے رب سے اپنے چچا کے دو بیٹوں کے لیے ہدایت کی دعا مانگی تو اللہ نے میری دعا قبول فرما لی۔‘‘ [1]
یقیناً یہ صلہ رحمی ہے۔ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی نہ کرتے تو اور کون کرتا؟ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نرم رویہ اختیار کیا اور اپنی قوم کے ان لوگوں کو عزت بخشی جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے گھر اور وطن سے نکالا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مظالم سے در گزر کرتے ہوئے ان کو معاف فرما دیا۔ ان کے متعلق تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ((اِذْھَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَائُ)) ’’جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘ [2]
[1] الطبقات لابن سعد:4؍60۔
[2] السنن الکبریٰ للبیھقي:9؍118۔