کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 109
بیزار ہو گئے۔ بے شک ابراہیم بڑے نرم دل، بہت تحمل والے تھے۔‘‘ [1]
اسلام قبول کرنے کے لیے کلمۂ توحید کا اقرار بہت ضروری ہے کیونکہ کلمۂ توحید میں حاکمیت اور عبادت صرف اللہ کے لیے خاص کی گئی ہے۔ نیز اس نے تمام کاہنوں، بتوں، پیروں، مذہبی پیشواؤں، امراء اور حکام کی حکومت ختم کر کے صرف اللہ ہی کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کیا ہے۔ اس کلمے کا اصل مقصود بھی یہی ہے کہ تمام معبودان باطلہ کی خدائی کا انکار کرکے ایک اللہ کے سامنے سر جھکایا جائے۔ قرآن کے نزول کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ صرف اللہ کی ذات کے ثبوت کے لیے دلائل پیش کیے جائیں کیونکہ اللہ کی ذات کا تو عربوں کو بھی انکار نہیں تھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق، رازق، بادشاہ (مالک) زندگی عطا کرنے والا، مارنے والا اور دیگر صفات کا مالک تصور کرتے تھے۔ انھیں انحراف کی بنا پر مشرک کہا گیا کہ وہ اپنی زندگیوں میں، اپنے معاملات میں اور اپنے آئندہ آنے والے حالات اور رزق وغیرہ کے امور میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک مانتے تھے۔ ان کے اسی گھناؤنے عمل کی بنا پر قرآن نے انھیں مشرک قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتقادات کا حال بیان فرماتے ہوئے توحید الوہیت کی حقیقت بھی بیان فرما دی، اللہ کا فرمان ہے:
﴿ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللّٰهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ ﴾
’’اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کیے اور (کس نے)
[1] التوبۃ 9: 114,113۔