کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 108
تعریف میں اشعار لکھ کر اس کی خدمت میں ارسال کیے تھے اور ان اشعار میں مسلمانوں کی تائید و نصرت جاری رکھنے پر بھی زور دیا تھا۔
کیا ابو طالب نے یہ سب کچھ اپنے بھتیجے کے دفاع میں کیا تھا؟ کیا یہ ساری تکالیف وہ قومی اور خاندانی عصبیت کی بنا پر اٹھا رہے تھے اور بنو ہاشم کے دُرِ یتیم کی طرف اٹھنے والے ہر طاقت ور ہاتھ کو روک رہے تھے؟ یا ابو طالب نے یہ سب کچھ کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی جان اس لیے خطرے میں ڈالی کہ وہ قلبی طو پر مسلمان ہو گئے تھے اور انھوں نے دعوتِ اسلام کو برحق تسلیم کر لیا تھا؟
قرآن کریم نے ان تمام امور کی نفی کی ہے جو ابو طالب کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے گھڑے گئے ہیں، نیز قرآن نے اس کی اصل حقیقت اور صحیح موقف کو خوب واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ، وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾
’’نبی اور ایمان والوں کے لیے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں۔ ان کے متعلق یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ بلاشبہ دوزخی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا بس ایک وعدے کے باعث تھا جو وعدہ انھوں نے اس سے کیا تھا، پھر جب ابراہیم پر واضح ہو گیا کہ یقیناً وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے