کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 81
اُن کی اِس بات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہنس دیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تبسم فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور یہ کہ آپ کسی پر بہتان نہیں لگائیں گی۔‘‘ ہند بولیں: ’’واللہ! بہتان لگانا تو بہت بُری بات ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور یہ کہ آپ امرِجائز میں میری نافرمانی نہیں کریں گی۔‘‘ ہند نے کہا: ’’آپ کی نافرمانی کا ارادہ ہوتا تو ہم یہاں آپ سے بیعت کرنے کو آتے ہی نہیں۔‘‘ خواتین کے لیے دعائے مغفرت کی۔ یہ بیعت بنا مصافحے کے انجام پائی تھی۔ یعنی آپ نے کسی خاتون کے ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھا تھا۔ آپ نامحرم خواتین سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے اور نہ اُنھیں چھوتے تھے۔[1] معرکۂ یرموک میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا شجاعانہ کردار نمایاں طور پر سامنے آیا۔ وہ بڑی بے جگری سے لڑے تاآنکہ اُن کی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یرموک کے روز لوگوں کی آوازیں دب گئیں۔ ایک آدمی کی بلند آواز سنائی دیتی تھی جو پکار پکار کر کہتا تھا: ’’اے اللہ کی مدد! قریب آ۔‘‘ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ ابو سفیان تھے۔ وہ اُس روز اپنے بیٹے یزید کی قیادت میں رومیوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں 33ھ میں وفات پائی۔ اس وقت اُن کی عمر 88 برس تھی۔ نمازِجنازہ اُن کے فرزند حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ اُنھیں جنت البقیع میں سپردِ خاک کیا گیا۔[2]
[1] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ص: 449، والکامل في التاریخ لابن الأثیر:2؍129۔ [2] الاستیعاب، ص: 807،808۔