کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 8
اُسے ایسی بے مثال قوت کے طور پر سامنے آنا تھا جو بیچارگی و درماندگی اور بُزدلی و پست ہمتی کے بے کیف اور ہمت شکن الفاظ سے یکسر نا آشنا ہوتی۔ وہ قوت امدادِ الٰہی کے پختہ ایمان و یقین کے ساتھ حوادثاتِ زمانہ سے دو دوہاتھ کرتی اور اَعدائے الٰہی اور اَعدائے دین و انسانیت کے مقابلے میں بھر پور تیاری سے برسر پیکار آتی۔ اُسے یہ اطمینانِ قلب حاصل ہوتا کہ
﴿ وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
’’اور اللہ ضرور ہی اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، بلاشبہ اللہ واقعی قوی ہے، سب پر غالب۔‘‘ [1]
قرآنِ مجید کے بتدریج نازل کرنے میں یہی حکمتِ الٰہی کار فرما تھی کہ اُسے نہایت توجہ سے پڑھا اور بڑی گہرائی سے سمجھا جائے۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد اُس کی تعلیمات کا نفاذ کیا جائے۔ یوں وہ بنی نوعِ انسان کے لیے ایک لائحہ عمل، دستور اور ایک رہبر کے طور پر بروئے کار آئے۔ انسانیت جادۂ حق سے بھٹکنے لگے تو وہ اُسے راہِ راست پر لے آئے۔ وہ غلطی کرنے لگے تو قرآنِ مجید اُسے صحیح راستہ بتائے اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے زندگی کی صعوبتوں اور راہِ عمل کی کٹھنائیوں سے گزار کر آسانی کی منزل پر لے جائے۔
قرآنِ مجید نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شکل میں کامل آدمیوں کی جو پہلی کھیپ تیار کی تھی، اُس کا ایک ایک فرد یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی ہر حرکت دیکھ رہا اور اُس کی ہر بات سُن رہا ہے۔ وہ اُس کے دل میں آنے والے تمام خیالات سے واقف ہے۔
[1] الحج 22 :40۔