کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 53
عورت نے قسم کھا کر کہا کہ اُس کے پاس کوئی خط نہیں۔ اُنھوں نے اُس کے سامان کی تلاشی لی لیکن خط برآمد نہ ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا وہ حرف بحرف سچ ہے۔ خط نکال ورنہ میں تجھے ننگا کرتا ہوں اور تیری گردن مارتا ہوں۔ اُس عورت نے جب یہ دیکھا کہ وہ خط لیے بنا نہیں ٹلیں گے تو اُس نے کہا کہ ذرا پرے ہٹ جائیے۔ میں خط نکالتی ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک طرف ہو گئے۔ اُس نے اپنے لباس کی پر تیں کھولیں اور خط نکال کر اُن کے حوالے کردیا۔ اُنھوں نے خط لے لیا اور عورت کو جانے دیا۔ خط لے کر یہ حضرات حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو آپ نے اُن سے فرمایا: ’’یہ خط پہچانتے ہو؟ ‘‘ وہ بولے: ’’جی ہاں۔‘‘ فرمایا: ’’ایسی کیا ضرورت پیش آئی تھی جو یہ اقدام کیا؟ ‘‘ اُنھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! بخدا! جب سے مسلمان ہوا ہوں، ارتکابِ کفر نہیں کیا۔ جب سے آپ کی خیر خواہی کرتا ہوں، آپ کو دھوکا نہیں دیا۔ اور جب سے انھیں چھوڑا ہے، اُن سے محبت نہیں کی۔ دراصل ہر مہاجر کا کوئی نہ کوئی دوست،رشتے دار مکہ میں ہے جو اُس کے خاندان کا دفاع کرتا ہے۔ میں اُن میں اجنبی تھا۔ میرے اہلِ خانہ وہیں ہیں۔ مجھے بس اُن کی فکر تھی۔ میں نے سوچا اہلِ مکہ پر کوئی احسان کرتا ہوں (تا کہ وہ میرے اہلِ خانہ کو گزند نہ پہنچائیں) کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اب اُنھیں مبتلائے عذاب کرے گا اور میرا خط اُنھیں کچھ فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں سچا جانا اور اُن کا عذر قبول فرمایا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اجازت دیجیے، اس منافق کی گردن مار ڈالوں۔ فرمایا: ’’عمر!