کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 52
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب اور بنو مطلب کو ترغیب دلائی کہ اس کی امداد کر دو۔ اُنھوں نے اُسے کھانے کو اناج، اوڑھنے کو کپڑے اور سفر کرنے کو سواری دی۔ جب وہ واپس جانے کے لیے تیار ہوئی تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اُس کے پاس آئے۔ یہ اُن چند افراد میں شامل تھے جنھیں پتہ تھا کہ یہ تیاریاں غزوۂ فتح مکہ کے لیے ہیں۔ اُنھوں نے سارہ کو اہلِ مکہ کے نام ایک خط دیا اور اُسے پہنچانے کے عوض دس دینار اُس کے حوالے کیے۔ سارہ نے خط لے لیا اور اُس رقم کے عوض اُسے مکہ میں پہنچانے کا وعدہ کیا۔ خط میں مرقوم تھا: ’’حاطب کی طرف سے اہلِ مکہ کے نام۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھاری جانب آتے ہیں، اِس لیے اپنا بندوبست کر لو۔‘‘ [1] سارہ خط لے کر نہایت تیزرفتاری سے مکہ روانہ ہوئی۔ اُسے قریش سے حاطب کے مقابلے میں دُگنا معاوضہ ملنے کی امید تھی۔ اُدھر حضرت جبریل علیہ السلام ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس امر کی اطلاع دینے کے لیے آن پہنچے۔ صاحبِ حکمت قائد نے فوری طور پر یہ حکیمانہ اقدام کیا کہ حضرت علی، عمار، طلحہ، زبیر، مقداد بن اَسود اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو جو سب کے سب شہ سوار تھے، اُس عورت کے تعاقب میں دوڑایا اور فرمایا کہ روضۂ خاخ میں پہنچے۔ وہاں ایک شتر سوار عورت آپ کو ملے گی۔ اُس کے پاس حاطب کا خط ہے جو اُس نے مشرکین کے نام لکھا ہے۔ وہ خط اُس سے لے لیجیے اور عورت کو جانے دیجیے۔ اگر وہ خط نہ دے تو اُسے وہیں مار ڈالیے ۔ یہ مختصر دستہ گھوڑے اڑاتا روضۂ خاخ میں پہنچا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسبِ ارشاد وہاں اُنھیں وہ شتر سوار عورت مل گئی۔ اُنھوں نے اُس سے پوچھا کہ وہ خط کہاں ہے۔
[1] الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب:1؍312۔