کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 51
مقوقس کے ہاں روانہ کیا۔ اِس سفارت کے دو مقاصد تھے۔ ایک، مقوقس کو دوبارہ قبولِ اسلام کی دعوت دی جائے۔ دو، قبطیوں سے امن و امان کا معاہدہ کیا جائے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی یہ سفارتی مہم بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ بعد ازاں جب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلامی فوج کی قیادت کرتے ہوئے مصر میں داخل ہوئے تو قبطیوں نے معاہدۂ صلح توڑ ڈالا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اُن کے خلاف معرکہ آرائی کی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کو فتح کر لیا گیا۔ مرزبانی نے معجم الشعراء میں لکھا ہے کہ دورِ جاہلیت میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے نمایاں شہ سواروں میں ہوتا تھا اور وہ شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی۔ اس وقت اُن کی عمر 65 برس تھی۔[1] ابتدا میں درج کردہ آیت کی شانِ نزول کے متعلق بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ابو عمرو صیفیبن ہاشم بن عبد مناف کی آزاد کردہ باندی سارہ جن دنوں مکہ سے مدینہ آئی، مسلمانانِ مدینہ چپکے سے غزوۂ فتح مکہ کی تیاری میں مصروف تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ مسلمان ہو کر آئی ہو۔ وہ بولی نہیں۔ فرمایا: پھر کیوں آئی ہو۔ وہ بولی کہ آپ ہمارا گھر، قبیلہ اور ہمارے آقا و مولا تھے۔ میں بہت محتاج ہو گئی ہوں۔ آپ کی خدمت میں آئی ہوں کہ میری امداد کیجیے۔
[1] الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب:1؍ 312۔ 314۔