کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 50
نبوت و رسالت کی نشانیاں مجھے اُس میں نظر آتی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوبِ گرامی لیا، اسے ہاتھی دانت کی صندوقچی میں رکھا اور مہربند کیا۔ صندوقچی کو اپنی ایک خدمت گار کے حوالے کیا کہ سنبھال کر رکھ دے۔پھر اس نے عربی لکھنے والے کاتب کو بلوایا اور لکھوایا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد بن عبداللہ کے لیے، قبطیوں کے بادشاہ مقوقس کی طرف سے۔ سلام علیک۔ اما بعد: میں نے آپ کا مکتوب پڑھا۔ اُس میں آپ نے جن باتوں کا ذکر کیا اور جن امور کے ماننے کی دعوت دی تھی، انھیں سمجھا۔ مجھے پتہ تھا کہ (انبیاء کے سلسلے کا) ایک نبی ابھی باقی ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ شام کے علاقے میں ظاہر ہو گا۔ میں نے آپ کے ایلچی کا اکرام کیا ہے۔ دو باندیاں آپ کے ہاں بھیج رہا ہوں جن کا پایہ قبطیوں میں بہت اونچا ہے۔ اور کچھ کپڑے بھی۔ ایک خچر آپ کے لیے تحفے میں بھیج رہا ہوں تا کہ آپ اُس پر سواری کریں۔ والسلام علیک۔‘‘ خط لکھوا کر مقوقس نے مجھ سے کہا کہ یہ تحفے میں تمھارے ہمراہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی طرف بھیج رہا ہوں۔ ایک محافظ دستہ بھی تمھارے ساتھ بھیجتا ہوں جو تمھیں تمھارے علاقے میں چھوڑ آئے گا۔‘‘ [1] یوں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے نہایت کامیابی سے یہ سفارتی مہم سر انجام دی اور مدینہ واپس آ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں انھیں ایک مرتبہ پھر سفیر بنا کر
[1] البدایۃ والنھایۃ:4؍516، والاستیعاب في معرفۃ الأصحاب:1؍93۔