کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 39
زار زار روتے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کا دل اُن کے لیے وقتی طور پر نرم پڑ گیا۔ یہودِ بنیقریظہ نے اُن سے پوچھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)ہمارے متعلق جو بھی فیصلہ کریں، کیا ہم اُسے تسلیم کر لیں۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے اثبات میں جواب دیا لیکن ساتھ ہی اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا۔ مطلب یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں تم لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ واللہ! میرے قدم وہاں سے ہٹے نہیں تھے کہ مجھے احساس ہوا کہ میں نے یہودِ بنی قریظہ کو قتل کے بارے میں بتا کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت میں خیانت کی ہے۔
یہ سوچ کر ابولبابہ رضی اللہ عنہ واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے۔ مسجد نبوی میں گئے اور خود کو مسجد کے ایک ستون سے باندھ لیا۔ اور تہیہ کیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ میرا یہ گناہ معاف نہیں کرے گا، میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ بھی عہد کیا کہ آئندہ وہ کبھی بنی قریظہ کے ہاں نہیں جائیں گے۔
اُدھر بنو قریظہ نے ہتھیار ڈال دیے۔ اُنھوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے متعلق جو بھی فیصلہ کریں گے وہ انھیں منظور ہو گا۔ اتنے میں قبیلۂ اوس کے سرکردہ افراد خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اوس کے لوگو! کیا تمھیں منظور نہیں کہ بنو قر یظہ کا فیصلہ تمھی میں سے ایک صاحب کریں؟ ‘‘
انھوں نے عرض کیا: ’’جی، ضرور۔‘‘
فرمایا: ’’پھر یہ فیصلہ سعد بن معاذ کریں گے۔‘‘
اہلِ اَوس، حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ’’ابو عمرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم