کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 38
مقابلے میں نکلتے ہیں۔ یوں ہم فارغ البال ہوں گے۔ بال بچوں کی طرف سے بے فکر ہو کر لڑیں گے۔ مارے گئے تو سکون سے مریں گے۔ اور غالب آ گئے تو یقین کرو بال بچے ہمیں مل جائیں گے۔ یہود نے جواباً کہا کہ کیا ہم ان بیچاروں کو مار ڈالیں۔ ان کا بھلا کیا قصور ہے ؟ان کے بعد زندگی میں کیا بھلائی رہ جائے گی؟ کعب بن اسد بولا کہ اچھا، یہ بھی نہیں مانتے تو ایسی بات ہے کہ آج ہفتے کی رات ہے۔ اُمید ہے کہ آج رات محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور اُس کے اصحاب کو ہماری طرف سے اقدام کی توقع نہیں ہو گی، اس لیے آج ہی رات اُن پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ یہود بولے: ’’اچھا تو اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماریں اور ہفتے کی رات وہ ناروا اقدام کریں جو ہم سے پہلے کسی یہودی نے نہیں کیا۔ اور اگر کسی یہودی نے کیا تھا تو تم جانتے ہو کہ اُسے مسخ کر دیا گیا تھا۔‘‘ اس پر کعب بن اسد نے مایوس ہو کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے، تم میں سے کسی نے کبھی عقل و شعور سے کام ہی نہیں لیا۔ [1] بعد ازاں انھوں نے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیجیے تا کہ ہم اُن سے پیش آمدہ صورت حال کے متعلق مشورہ کر سکیں۔ حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلے بنی اوس سے تھا۔ بنی اوس، یہودِ بنی قریظہ کے حلیف تھے۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اُن کے ہاں گئے تو وہ دیوانہ وار اُن کے استقبال کو لپکے۔ استقبال کرنے والوں میں یہودی مرد، عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے۔ عورتیں اور بچے
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍ 245۔ 247، والبدایۃ والنہایۃ لابن کثیر:4؍ 135۔ 136۔