کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 37
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ لوٹ آئے اور بزدلانِ مکہ کو سبق سکھانے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے۔ تاریخِ اسلام کے اس حصے پر توجہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نہایت سچے اور مخلص اہلِ ایمان تھے۔ دوسرے سچے اور مخلص اہلِ ایمان کی طرح وہ بھی اپنے فرائضِ منصبی نہایت تندہی اور بڑی ذمے داری سے ادا کرتے تھے۔ غزوۂ بنی قریظہ کے موقع پر وہ غزوے میں شریک تھے۔ مدینہ کی ذمے داری اس مرتبہ حضرت عبداللہ ابنِ ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی تھی۔ مسلمانوں نے پچیس روز یہودِ بنی قریظہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ اُنھیں یقین آ گیا کہ مسلمانانِ مدینہ اُن سے دو دو ہاتھ کیے بنا نہیں پلٹیں گے۔ اُن کے ایک سر غنہ کعب بن اَسَد نے اُنھیں مخاطب کیا اور کہا: ’’میں تین باتیں تمھارے سامنے رکھتا ہوں۔ اُس میں سے کوئی ایک بات مان لو اور اُس کے مطابق عمل کرو۔‘‘ یہود نے پوچھا کہ کیسی تین باتیں۔ وہ بولا: ’’ہم اس آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لے آتے اور اس کی پیروی کرلیتے ہیں۔ تم جان چکے ہو کہ وہ واقع میں نبی مُرسل ہے۔ وہی جس کا ذکر تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔ یوں تمھارے جان و مال اور بیویاں، بیٹے محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘ یہود نے جواب دیا کہ توریت کو ہم کبھی خیر باد نہیں کہیں گے نہ اس کے ساتھ کسی اور کتاب کا تبادلہ کریں گے۔ کعب بن اسد نے کہا کہ یہ بات نہیں مانتے تو آؤ، ہم اپنے بال بچوں کو مار ڈالتے ہیں اور تلواریں سونت کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور اُس کے اصحاب کے