کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 36
کچھ ہی عرصے میں سب کے سب ہلاک ہو گئے۔[1]
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی مدینہ کی ذمے داری حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو سونپی تھی۔ اس سے قبل ہم غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی شاندار فتح کی تفصیلات بیان کر رہے تھے۔ کافروں کا شکست خوردہ لشکر مکہ پہنچا تو اُن کے سپہ سالار ابو سفیان بن حرب نے قسم کھائی کہ جب تک وہ مدینہ پر حملہ آور نہیں ہوتا، نہائے گا نہیں۔ چنانچہ وہ قریش کے دو سو گھڑ سواروں کے ہمراہ محض اپنی قسم پوری کرنے کے لیے نکلا اور رات کو مدینہ جا پہنچا۔ وہ چھپ چھپا کر مدینہ میں داخل ہوا اور یہودِ بنی نضیر کے خبیث سردار سلام بن مشکم کے ہاں اترا۔ وہاں اُسے تمام صورت حال کے بارے میں بتایا گیا۔ چنانچہ وہ اُسی رات وہاں سے نکلا اور اپنے چند گھڑ سواروں کو مدینہ کے ایک نخلستان میں بھیجا۔ اُنھوں نے نخلستان کی کھجوریں جلا ڈالیں۔ ایک انصاری اور اُس کے ایک حلیف کو مار ڈالا۔ یہ بزدلانہ اقدام کر کے وہ بھاگ آئے۔ اُدھر یہ شور اُٹھا کہ کافروں نے حملہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں نے فوری طور پر جمعیت مہیا کی۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پھر مدینہ کی ذمے داری حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو سونپی اور مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ ابو سفیان جانتا تھا کہ مسلمانوں کے سردار(صلی اللہ علیہ وسلم)اُس کے تعاقب میں ضرور آئیں گے۔ اُس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور نہایت تیزی سے بھاگا۔ اُس کے بزدل گھڑ سوار بھی اُس کے ہمراہ بھاگتے گئے۔ رفتار کو مزید تیز کرنے کے لیے انھوں نے اپنے بوجھ ہلکے کیے اور کھانے پینے کا اضافی سامان وہ راستے میں پھینکتے گئے۔[2]
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍ 50۔ 52، والکامل فی التاریخ لابن الأثیر:2؍ 33۔34۔
[2] السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام:3؍47۔48، والرحیق المختوم، ص: 240، 241۔