کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 35
میں تھے، زور زور سے ہنسنے لگے۔ ایک مسلمان بھی کسی کام سے بازار گیا تھا۔ اُس نے یہ اندوہناک منظر دیکھا تو تڑپ اُٹھا۔ فوراً آگے بڑھا۔ اُس خبیث پر جس نے یہ گھٹیا شرارت کی تھی، تلوار کا وار کیا اور اُس کا کام تمام کر ڈالا۔ دوسرے یہودی اُس مسلمان پر پل پڑے اور اُسے شہید کر دیا۔ یوں انھوں نے امن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی اور قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔ مسلمانوں نے یہودی قلعوں کا محاصرہ کر لیا جو پندرہ دن جاری رہا۔ آخر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ اُن سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ قینقاع کے یہودی بنو خزرج کے حلیف تھے۔ عبداللہ بن اُبی کا تعلق بھی بنو خزرج سے تھا۔ وہ اُٹھا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کہ بنو قینقاع کو چھوڑ دیجیے۔ آپ نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا۔ اُس نے نہایت گستاخی سے آپ کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔ آپ بہت غصے میں آگئے۔ اُسے ڈانٹا: ’’ارے! چھوڑ دے مجھے۔‘‘ وہ بولا: ’’یہ سات سو جنگجو میرے دوست ہیں۔ اُنھوں نے ہمیشہ میرا دفاع کیا۔ اور آپ انھیں ایک ہی دن میں مٹا ڈالنا چاہتے ہیں۔ جب تک آپ اُن پر احسان نہیں کرتے، میں آپ کو نہیں چھوڑنے کا۔‘‘ اُس نے کہا کہ واللہ! میں گردشِ زمانہ سے ڈرتا ہوں۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا: ’’جاؤ۔ وہ تمھارے ہیں۔‘‘ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’چھوڑ دو اُنھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن (یہود) پر اور اس (ابنِ اُبی) پر لعنت کرے۔‘‘ یہودِ بنی قینقاع کا تمام مال و دولت غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انھیں شہر بدر کر دیا گیا۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ انھیں ذباب تک دھکیل آئے۔ وہاں سے وہ شام کے علاقے اَذرعات میں جا پہنچے اور