کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 24
تعلق سے اچھے سلوک کی وصیت لیجیے۔‘‘
حضرت خولہ بنتِ ثعلبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے آپ کے حسبِ ارشاد عمل کیا۔ [1]
یوں ایک نئے معاشرے نے بالکل نیا جنم لیا۔ اُس معاشرے کے خاص عقائد تھے۔ وہ عقائد ان عقائد سے یکسر مختلف تھے جو اس نے آباؤ اجداد سے ورثے میں پائے تھے۔ جو معاشرتی نظام اُس بے مثال معاشرے میں تشکیل پایا تھا وہ آسمانی تعلیمات پر مبنی تھا۔ زمینی خرافات سے اُس کا کچھ تعلق نہیں تھا۔ اُس معاشرے میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی تھی۔ اسی عقیدۂ توحید نے انھیں اخوت کے اٹوٹ رشتے میں باندھ رکھا تھا۔ معاشرتی لین دین کے تمام تر معاملات ایمان باللہ کی بنیاد پر نبٹائے جاتے تھے۔ اگر کوئی معاملہ بگڑ جاتا تو اُس کے سنوارنے کے لیے براہِ راست شریعت سے رہنمائی لی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی انسان نے جنم لیا۔ وہ انسان جو تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ نہایت متقی انسان جو تمام انسانوں کی بھلائی اور اُن کی خوشحالی کے لیے کام کرتا تھا۔ وہ انسان جس نے قرآنِ مجید کا مذہب اپنایا اور اُسی کو زندگی کا لائحہ عمل قرار دیا تھا۔ وہ ایمان دار انسان جو یہ سمجھتا تھا کہ تمام انسان، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ یوں وہ تمام آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اور جب وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں تو رنگ و نسل کا امتیاز انھیں الگ الگ نہیں کر سکتا۔ کسی خاص طبقے یا خاص گروہ کا تعلق انھیں ایک دوسرے سے اونچا نہیں کر سکتا۔ اور بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کواپنا غلام نہیں بنا سکتے۔ کیونکہ سب انسان برابر ہیں۔ ارشادِ نبوی ہے:
[1] سنن أبي داود، حدیث: 2214، و مسند أحمد:6؍410۔