کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 22
متعلق نازل ہوئی تھی:
﴿ قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللّٰهِ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴾
’’(اے نبی!) یقیناً اللہ نے اس عورت (خولہ بنت ثعلبہ) کی بات سن لی جو اپنے خاوند (اوس بن صامت) کے متعلق آپ سے جھگڑ رہی تھی اور وہ اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ [1]
میں اوس بن صامت کی بیوی تھی۔ وہ بڑے بوڑھے ہو چکے تھے۔ طبیعت میں چڑچڑا پن آ گیا تھا۔ ایک روز گھر میں آئے تو کسی بات پر میری اُن سے بحث وتکرار ہو گئی۔ غصے میں آ کر کہنے لگے: ’’تم میرے لیے ایسے جیسے میری ماں۔‘‘
اتنا کہہ کر گھر سے نکل گئے۔ قوم کی محفل میں بیٹھے رہے۔ گھر آئے، غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ میرے قریب آ نا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: بخدا! ہرگز نہیں، جو بات آپ نے کہہ ڈالی ہے اُس کے بعد تو میں آپ کو اپنے قریب نہ آنے دوں گی تاآنکہ اللہ اور اُس کا رسول ہمارے بیچ فیصلہ کر دیں۔
لیکن وہ تو مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے مزاحمت کی۔ بیچارے بڑے بوڑھے تھے۔ میں توانا تھی۔ اٹھا کر دور پٹک دیا۔ پڑوسن کے ہاں گئی۔ اُس سے کپڑے اُدھار لے کر پہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اوس بن صامت نے مجھ سے جو بات کہی تھی وہ میں نے آپ کو بتائی۔ ان کی تلخ مزاجی کے متعلق بھی بتایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا:
[1] المجادلۃ 58 :1۔