کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 21
ہے، تاکہ آپ کو اللہ نے جو سیدھی راہ دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں، اور آپ خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنیں۔ اور اللہ سے بخشش مانگیں ۔ بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اور آپ ان لوگوں کی طرف سے جھگڑا نہ کریں جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کرنے والا، گناہ گار ہو۔ وہ لوگوں سے (تو اپنی حرکتیں) چھپا سکتے ہیں، مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے اور وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کو چھپ کر ایسا مشورہ کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں، اور وہ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ اسے گھیرے ہوئے ہے۔ ہاں، تم لوگوں نے یہاں دنیا کی زندگی میں تو ان (مجرموں) کی طرف سے جھگڑا کرلیا، پھر قیامت کے دن اللہ کے ہاں ان کی طرف سے کون جھگڑے گا؟ یا( وہاں) کون ان کا وکیل ہوگا؟‘‘ [1]
یوں یہود مدینہ کی دریدہ دہنی کے باوجود قرآنِ مجید نے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے۔
قرآنِ مجید نے ایک اور جاہلی روایت کا بھی قلع قمع کیا جو شانِ آدمیت کے لائق نہیں تھی۔ یوں اُس نے مسلمان عرب خواتین کے علاوہ ہر دور کی خواتین کو ذلت و رسوائی کے گڑھے سے نکال باہر کیا۔
یہ روایت امام احمد نے اپنی کتابِ حدیث میں درج کی ہے۔ روایت کی راوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ واللہ! یہ آیت میرے اور اوس بن صامت کے
[1] النساء 4: 105۔ 109، وجامع الترمذي، حدیث: 3036، وأسباب نزول القرآن للواحدي، ص: 183، والدر المنثور للسیوطي:2؍ 382۔ 384۔