کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 19
یوں قرآنِ مجید ان لوگوں کے لیے لائحہ عمل اور منشورِ حیات بن کر اترتا تھا۔ جس میں اُن کی تمام چھوٹی بڑی مشکلات کا حل بتایا جاتا تھا۔ قرآنِ مجید اُن کی معاشرتی تشکیلِ نو کر رہا تھا۔ وہ اُن کے باہمی اختلافات دور کر رہا تھا۔ آدمی کا جھگڑا اپنی بیوی سے ہوتا یا بیٹی سے، قرآنی آیات اس کا حل پیش کرتیں۔
قرآنی آیات تو اس لیے بھی نازل ہوئیں کہ ایک یہودی کو ایک انصاری سے انصاف دلائیں۔ کیونکہ جھگڑے کا تعلق صرف ایک یہودی اور ایک انصاری سے نہیں تھا۔ معاملہ امت کی تربیت کا تھا جسے آگے بڑھ کر انسانیت کی باگ ڈور سنبھالنی اور الٰہی امانت انسانوں کو پہنچانی تھی۔ معاملہ اعلائے کلمۃ اللہ اور قیامِ عدل و انصاف کا تھا۔ یوں قرآنِ مجید نے اُسے غیرمعمولی اہمیت دی۔ یہ واقعہ تفسیرِ قرآنی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ انصار کے چند افراد، جن میں قتادہ بن نعمان اور اُن کے چچا رفاعہ نمایاں طور پر شامل تھے، ایک غزوے میں شریک ہوئے۔ ان میں سے کسی آدمی کی زرہ (جو اُس زمانے کا بیش قیمت جنگی لباس تھا) چوری ہو گئی۔ اُس کا شک ایک انصاری گھرانے بنو ابیرق کے ایک شخص پر گیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ بشیر بن ابیرق نے میری زرہ چرائی ہے۔ چور کو جب اِس امر کا پتہ چلا تو اُس نے وہ زرہ اٹھائی اور ایک یہودی زید بن سمین کے گھر میں ڈال دی۔ اُس نے اپنے خاندان کے چند افراد کو بھی بتا دیا کہ میں نے زرہ چرا کر فلاں یہودی کے گھر میں چھپا دی ہے۔ اگر تلاشی ہوئی تو زرہ وہیں سے برآمد ہو گی۔ چنانچہ وہ لوگ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہمارا آدمی جو نہایت متدین گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اس الزام سے بری ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ زرہ فلاں یہودی نے چرائی ہے، اس لیے آپ سب کے سامنے ہمارے آدمی کو بری قرار دیجیے ورنہ ہم تو مارے جائیں گے۔