کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 17
’’ کہہ دیجیے! دنیا کا سامان (آخرت کے مقابلے میں) بہت تھوڑا ہے۔‘‘ [1]
یہ سبق ملا کہ دنیا کی کوئی آسائش اگر نہیں ملی تو افسوس نہیں کرنا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ ﴾
’’تاکہ تم اس(چیز) پر غم نہ کھاؤ جو تم سے جاتی رہے۔‘‘ [2]
اگر کچھ مل گیا ہے تو تکبر کا شکار نہیں ہونا کہ جو کچھ عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ﴾
’’اور تم اس پر نہ اتراؤ جووہ تمھیں عطا کرے ۔‘‘ [3]
اگر کسی نے اپنا کچھ روپیہ خرچ کیا ہے یا کسی کو دیا ہے تو اُس نے اللہ کا روپیہ خرچ کیا اور اللہ کے روپیہ میں سے دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ﴾
’’ اوراس(مال) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمھیں جانشین بنایا ہے۔‘‘ [4]
آدمی نے اگرچہ جو روپیہ راہِ خدا میں دیا، اللہ تعالیٰ کے روپیہ میں سے دیا، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اُسے قرض فرمایا اور اُس کے لوٹانے کا وعدہ کیا ہے۔ اور یہی نہیں کہ اُسے اُس کی اصل رقم واپس ملے گی بلکہ اس کا قرض اسے دنیا و آخرت میں کئی گنا کر کے لوٹایا جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّٰه قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ﴾
’’ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ پھر اللہ وہ مال اس کے لیے کئی کئی گنا
[1] النساء4: 77۔
[2] الحدید57 :23۔
[3] الحدید 57 :23۔
[4] الحدید57 :7۔