کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 16
رسول! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللّٰهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴾
بیرحا میری سب سے پیاری جائیداد ہے۔ میں یہ جائیداد اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ اے اللہ کے رسول! آپ اسے جس مد میں چاہیں صرف کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا کہ ابو طلحہ! مبارک ہو! یہ تو بڑی منافع بخش جائیداد ثابت ہوئی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسے اپنے عزیز و اقارب میں تقسیم کر دیجیے۔ اس پر ابو طلحہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ چنانچہ انھوں نے وہ باغ اپنے عزیز و اقارب اور اپنے چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔[1]
یوں قرآنِ مجید نے ان کی تربیت اِن خطوط پر کی کہ اُن کے ہاتھوں میں موجود روپیہ دراصل اللہ کا روپیہ ہے۔ وہ اللہ کی امانت ہے جو اُس نے اُنھیں اُدھار دی ہے۔ اور وہ جب چاہے گا، اپنی امانت اُن سے واپس لے کر کسی اور کو دے دے گا۔ قرآنِ مجید کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے تسلیم کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی کو روپیہ کا لالچ نہ رہا۔ مال و متاع کے جمع کرنے کی حرص نہ رہی۔ دلِ قناعت سے آشنا ہوئے۔ نفسِ انسانی نے بے غرضی اور سخاوت کی راہ اپنائی۔[2]
آدمی کو یہ احساس ہوا کہ زندگی میں روپیہ ہی سب کچھ نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ ﴾
[1] مسند أحمد:3؍141، و صحیح البخاري، حدیث: 1461، و صحیح مسلم، حدیث: 998۔
[2] فی ظلال القرآن لسید قطب:1؍411۔