کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 15
ہوش مندی سے کام لینا اور وجدان و شعور کو فعال رکھنا تھا۔ اُسے زمین میں خلافت کی ذمے داریاں نبھانی تھیں جو خدا نے اُس پر عائد کی تھیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے قرآنی احکامات پر بے چون و چرا عمل کیا اور شراب کو یوں چھوڑ دیا گویا وہ کبھی اُن کی زندگی کا حصہ ہی نہیں رہی تھی۔ قرآنِ مجید نے مسلمانوں کو یہ سبق بھی سکھایا کہ آدمی جو روپیہ کماتا اور جو رزق حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ یوں وہ اللہ تعالیٰ کا روپیہ ہے جو اُسے الٰہی احکامات کے مطابق خرچ کرنا اور بروئے کار لانا ہے۔ قرآنِ مجید کے اس سبق نے مسلمانوں پر یہ اثر کیا کہ وہ اپنا روپیہ راہِ خدا میں پانی کی طرح بہا ڈالتے تھے۔ مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انصار مدینہ میں ابو طلحہ سب سے امیر آدمی تھے۔ بیرحا ان کی سب سے قیمتی جائیداد تھی جو انھیں بہت پیاری تھی۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کی نعمت سے مالا مال یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ میں اکثر جایا کرتے اور وہاں کا میٹھا پانی نوش فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللّٰهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴾ ’’تم پوری نیکی ہرگز نہیں حاصل کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ [1] ابو طلحہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے
[1] آل عمران 3 :92۔