کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 14
اور بدستور شراب پیتے رہے۔ بعد ازاں یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ﴾
’’ اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اس حالت میں نمازکے قریب نہ جاؤ کہ تم نشے میں ہو یہاں تک کہ تمھیں علم ہو اُس کا جو تم کہتے ہو۔‘‘ [1]
انھوں نے وہی بات عرض کی کہ بارِ الٰہا! شراب کے متعلق بیانِ شافی نازل فرما۔ آخر کار آیتِ تحریم نازل ہوئی:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ،إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ ﴾
’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور فال نکالنے کے تیر تو محض ناپاک ہیں، شیطان کے عمل سے ہیں، لہٰذا اُس سے بچو تا کہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے سے تمھارے بیچ عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ تو کیا تم (ان شیطانی کاموں سے) باز آتے ہو۔‘‘ [2]
تب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم باز آئے۔ ہم باز آئے۔ [3]
یوں شراب حرام قرار دے دی گئی کیونکہ قرآن مجید کو انسانوں کی جو کھیپ تیار کرنی تھی اُسے ہمہ وقت دین سے مربوط رہنا اوراللہ سے تعلق قائم رکھنا تھا۔ اُسے برابر
[1] النساء4: 43۔
[2] المائدۃ 5: 90، 91۔
[3] سنن أبي داود، حدیث: 3670، و جامع الترمذي، حدیث: 3049، و سنن النسائي، حدیث: 5542۔