کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 136
نہ صرف محبت، تعظیم اور احترام بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ کافروں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو جب سولی دی تو ان سے پوچھا کہ تم پسند کرتے ہو، اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھاری جگہ ہوتے؟ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ واللہ! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میں بچ جاؤں اور اس کے بدلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں وہ تشریف فرما ہیں وہیں ر ہتے ہوئے، ایک کانٹا بھی چبھے۔ [1] غزوۂ احد کے موقع پر مشرکین نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا تو حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی پیٹھ کو آپ کے لیے ڈھال بنا دیا۔ ان پر تیر پڑ رہے تھے لیکن وہ ہلتے نہ تھے۔‘‘ [2] غزوۂ احد سے واپسی پر مسلمانوں کا گزر بنو دینار کی ایک خاتون کے قریب سے ہوا جس کے شوہر، بھائی اور والد تینوں جامِ شہادت نوش کر گئے تھے۔ جب انھیں ان اقربا کی شہادت کے متعلق بتایا گیا تو وہ کہنے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ حضور بالکل خیریت سے ہیں۔ خاتون نے کہا: ’’ذرا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرادو۔‘‘ لوگوں نے انھیں اشارے سے بتلایا۔ جب ان کی نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھیں: ((کُلُّ مُصِیبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلُ)) ’’آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔‘‘ [3]
[1] البدایۃ والنہایۃ:4؍ 247۔ [2] زاد المعاد:3؍177۔ [3] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍105، والرحیق المختوم۔ ص: 283۔