کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 134
بنانے کی جاہلی رسم کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر توڑ ڈالا تھا:
﴿ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ﴾
’’ان (لے پالکوں) کو ان کے (حقیقی) باپوں کی نسبت سے پکارو، اللہ کے نزدیک یہ بہت انصاف کی بات ہے، پھر اگر تمھیں ان کے باپوں کا علم نہ ہوتو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے دوست ہیں۔‘‘[1]
اس امر کی مزید تاکید اور اس کے عملی مظاہرے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی شادی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ سے کرادی جو اس رسمِ جاہلی کے خاتمے سے پہلے منہ بولے بیٹے رہ چکے تھے۔ اسی لیے فرمایا:
﴿ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُولًا﴾
’’پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس کا نکاح آپ سے کردیا،تاکہ مومنوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے نکاح) میں کوئی حرج نہ رہے، جب وہ ان سے(اپنی) حاجت پوری کرلیں۔‘‘ [2]
یوں اس جاہلی رسم کا جڑ سے خاتمہ ہوا اور پتہ چلا کہ اسلام میں منہ بولے رشتے قائم کرنے کی کوئی حیثیت نہیں۔
بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ ((أَخُونَا وَ مَوْلَانَا)) (ہمارا بھائی اور ہمارا دوست) کہا کرتے تھے۔
[1] الاحزاب 33 :5۔
[2] الاحزاب 33 :37۔