کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 13
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے سے تمھارے بیچ عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ تو کیا تم (ان شیطانی کاموں سے) باز آتے ہو۔‘‘ [1]
وہ کہتے ہیں کہ جب میں یہ آیات پڑھ رہا تھا، چند ہم نشینوں کے ہاتھوں میں شراب کے جام تھے اور ان میں شراب ابھی باقی تھی۔ یہ آیات سنتے ہی تمام افراد نے جام بہا ڈالے۔ کانچ کی صراحی میں جو شراب تھی، وہ بھی بہا ڈالی اور کہنے لگے: ’’اے ہمارے رب! ہم باز آئے۔ اے ہمارے رب! ہم باز آئے۔‘‘ [2]
شراب حرام کر دی گئی حالانکہ کتبِ تاریخ کے مطابق وہ انھیں اتنی پیاری تھی کہ وہ اُس کے بنا سانس لینے کا تصور نہیں کرتے تھے۔ شراب اُن کی زندگی کا جزوِ لاینفک تھی۔ سفر و حضر میں وہ اُن کی مونس و غمگسار تھی۔ خود حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی دورِ جاہلیت میں بقول اُن کے بلا نوش تھے۔ اسلام لائے تو شراب کو بھی ہمراہ لیتے آئے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا﴾
’’وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ، ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے ہیں اور اِن دونوں کا گناہ ان دونوں کے فائدے سے بڑا ہے۔ ‘‘[3]
انھوں نے کہا کہ یا اللہ! ابھی تشنگی باقی ہے۔ شراب کے متعلق بیانِ شافی نازل فرما۔
[1] المائدۃ 5: 90، 91۔
[2] تفسیر الطبري:7؍43۔
[3] البقرۃ 2: 219۔