کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 12
نے بیان کیا کہ صحابۂ کرام کی ایک محفل میں جامِ صہبا کا دور چل رہا تھا۔ ابوطلحہ، ابوعبیدہ بن جراح، ابودجانہ، معاذ بن جبل اور سہل بن بیضا رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے۔ میں ساقی کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ سب نے صہبا کے جام کے جام لنڈھائے اور نشے میں دھت ہو گئے۔ اتنے میں منادی کی آواز سنائی دی: ’’سن لو کہ شراب حرام قرار دے دی گئی ہے۔‘‘ پھر نہ تو ہماری مجلس میں کوئی بیٹھا نہ کوئی مجلس میں سے اٹھا تاآنکہ ہم نے تمام شراب بہا دی اور جتنے مٹکے دھرے تھے، سب کے سب پھوڑ ڈالے۔ بعض نے جلدی سے وضو کیا، بعض نے تو غسل ہی کر ڈالا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں سے خوشبو منگائی، لگائی اور سبھی مسجد کو روانہ ہو گئے۔[1] ابوبُریدہ کے والد نے بتایا کہ ہم بادہ نوشی کی محفل میں بیٹھے جامِ انگوری کے مزے لوٹ رہے تھے کہ میں دفعتاً اٹھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ میں نے سلام عرض کیا۔ اتنے میں شراب کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں۔ میں فوراً ہم نشینوں کے پاس واپس آیا اور انھیں یہ آیات پڑھ کر سنائیں: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ،إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ ﴾ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شراب اور جوا اور بت اور فال نکالنے کے تیر تو محض ناپاک ہیں، شیطان کے عمل سے ہیں، لہٰذا اُس سے بچو تا کہ تم فلاح پاؤ۔
[1] صحیح البخاري، حدیث: 5582،7253، و صحیح مسلم، حدیث: 1980، و تفسیر ابن کثیر:2؍129۔