کتاب: رجال القرآن 6 - صفحہ 10
روکو کہ وہ اپنے (پہلے) شوہروں سے نکاح کریں جبکہ وہ دستور کے موافق آپس میں راضی ہوں۔ اس امر سے اُس کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ (مسئلے کا) یہ (حل) تمھارے لیے بہت پاکیزہ اور زیادہ صاف ستھرا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ [1]
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت سنی تو کہا کہ میں اپنے رب کا فرمان سنتا ہوں، اور سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔ بہنوئی کو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو فرمایا: میں تمھاری عزت افزائی کرتا ہوں اور اپنی خواہر کا ہاتھ تمھارے ہاتھ میں دیتا ہوں۔ [2]
یوں انھوں نے اپنی بہن اور اپنے بہنوئی کا دوبارہ نکاح کر دیا۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امرِ الٰہی کے روبرو فوراً سر تسلیم خم کر دیتے تھے۔ احکاماتِ الٰہی کے سلسلے میں اُن کا رویہ تسلیمِ کامل پر مبنی تھا، یعنی احکاماتِ الٰہی کی فوری اور غیرمشروط تعمیل۔
زمانۂ جاہلیت کی خواتین سینے پر اوڑھنی کا پلو ڈالے بغیر مردوں کے سامنے آ جایا کرتی تھیں۔ بسا اوقات اُن کی گردنیں، زلفیں اور کانوں کی بالیاں بھی عیاں ہو جاتی تھیں۔ وہ یہ بے پردگی اس لیے روا رکھتی تھیں کہ معاشرتی قانون اُس کی اجازت دیتا اور عرفِ عام اسے روا رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو امتِ مسلمہ کی تربیت پاکیزہ خطوط پر کرنی مقصود تھی۔ اُس نے قرآنِ مجید میں یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ ﴾
[1] البقرۃ 2 :232۔
[2] سنن أبي داود، حدیث: 2087، و جامع الترمذي، حدیث: 2981۔