کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 32
ابھی دعوتِ اسلام سے بے خبر تھے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم نبی کو اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ جانتے اور پہچانتے ہیں۔‘‘
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ اپنے استاد کے کلمات کو بار بار دہراتے ہیں اور یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کہ وہ نبی سر زمین عرب میں پیدا ہو گا اور دو پتھریلے علاقوں کے درمیان والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا۔ ہدیہ قبول کرے گا مگر صدقہ نہیں کھائے گا۔ اس کے شانوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔
ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔ کہیں سے کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی تھی کہ جس کے ذریعے سے انسان راہ راست پر آ سکتا۔ گویا یہ کسی نئی چیز کے ظہور کی علامت اور تمہید تھی۔ یہی نظامِ کائنات ہے کہ جب اندھیرا اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ اور زمین سے نیک لوگوں کے ختم ہونے کا مطلب ہے کہ کسی نبی اور رسول کی آمد قریب ہے۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ اس سر زمینِ نبوت کی طرف کوچ کرنا ضروری ہے۔ انھی سوچ بچار کے دنوں میں انھوں نے دیکھا کہ ایک قافلہ سفر پر جانے کے لیے تیار ہے، یہ بھی پتا چلا کہ یہ قافلہ بلاد عرب کو جانے والا ہے۔ انھوں نے قافلے والوں سے بات کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ اگر تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ گے تو میں اپنی گائے بکریوں کا ریوڑ تم لوگوں کو دے دوں گا۔
سبحان اللہ! اس اللہ کے بندے کے نزدیک مقصد حیات کے مقابلے میں مادی چیزوں کی قدر و قیمت نہایت کم تھی۔ قافلے والوں کو یہ سودا منافع بخش معلوم ہوا اور انھوں نے اس متلاشیِ حق کو اپنے ساتھ لے لیا۔ قافلہ روانہ ہوا، صحرا اور جنگلات عبور