کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 31
عبادت کا لب لباب ہے۔ اور دنیا کی آباد کاری فرض ہے۔ اور مخلوق کی طرف سے بھلی زندگی کے لیے کوشش کرنا نیک لوگوں کے اخلاق میں سے ہے۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے خوب محنت کی حتی کہ میرے پاس بہت سی گائیں اور بکریاں ہو گئیں۔‘‘ پھر کیا ہوا؟ آخر اس نیک آدمی کا وقت اجل بھی آ گیا۔ سلمان رضی اللہ عنہ اس کے قریب ہوئے اور کہا: ’’میں فلاں شخص کے ساتھ تھا، اس نے مجھے فلاں کی طرف جانے کی وصیت کی تھی، پھر مجھے فلاں کی طرف وصیت کی گئی اور پھر مجھے آپ کی طرف آنے کی وصیت کی گئی۔ تو اب آپ مجھے کس کی طرف بھیج رہے ہیں؟ اور مجھے کیا حکم دیں گے؟‘‘ اس راہب نے کہا: ’’اے میرے بچے! اللہ کی قسم! سمجھ میں نہیں آتاکہ میں تمھیں کس کے پاس بھیجوں کیونکہ مجھے علم نہیں ہے کہ زمین پر کونسا ایسا آدمی ہے جو اس صحیح دین پر ہو جس پر ہم ہیں۔ ہاں! ایک نبی کے آنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ وہ دین ابراہیم کی تبلیغ کرے گا۔ وہ عرب کی زمین میں پیدا ہو گا اور ایسی زمین کی طرف ہجرت کر جائے گا جو دو حروں کے درمیان ہو گی۔ وہاں کھجور کے درخت بے بہا ہوں گے۔ ان کی کچھ واضح علامات ہیں۔ وہ ہدیہ قبول کریں گے لیکن صدقے کا مال قبول نہیں کریں گے۔ ان کے کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔ اگر تم اس علاقے میں جا سکتے ہو تو چلے جاؤ۔‘‘ [1] حقیقت میں یہی لوگ اللہ کے حقیقی بندے ہیں۔ خاموش طبع، حق کے متلاشی، نئی روشنی کے ظہور کے منتظر۔ ایسے لوگ ہی نبی کو اس کی علامات سے پہچانتے ہیں اور ان کی صفات کا علم رکھتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن سلام ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ وہ
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍237، والطبقات لابن سعد:4؍77۔