کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 30
میں چھپے شکار تک شکاری بڑی جہد اور مشقت کے بعد ہی پہنچ پاتا ہے۔ اور ایسے لوگ شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔ آفاق کو طے کرنے والا یہ مسافر اپنا بوریا بستر باندھتا ہے، زاد راہ لیتا ہے جو صرف ایمان، تقوی اور ایسا پاکیزہ دل ہے جو رب کی تسبیح سے لمحہ بھر بھی غافل نہیں ہے۔ اور پھر اپنی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ زمین اس کے پاؤں کے نیچے سے سکڑتی جا رہی تھی، یعنی سفر تیزی سے جاری تھا۔ راہ طلب کا مسافربہت جلد مطلوبہ شخص تک پہنچ جاتا ہے اور اپنا سارا واقعہ اس کے گوش گزار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک عرصہ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور حق تلاش کرنے کا جذبہ حسب معمول پوری طرح بیدار ہے۔ جب اس آدمی کا وقتِ اجل قریب آتا ہے تو یہ بزرگ اس حق کے متلاشی کو کسی دوسرے آدمی کے پاس جانے کی وصیت کرتا ہے جو علاقہ ’’نصیبین‘‘ میں رہتا ہے۔ [1] تلاش حق میں گھومنے پھرنے والے اس مسافر کے قدم ابھی تک تھکے نہیں تھے۔ نہ اس کی روح سست پڑی تھی۔ وہ جب ’’نصیبین‘‘ پہنچے تو وہاں کے عالم اور راہب نے اسے عموریہ جانے کی وصیت کی۔ [2] عموریہ کے راہب نے انھیں عبادت کے نئے طریقے سکھائے۔ اس نے انھیں وصیت کی کہ وہ سخت محنت و مشقت کریں۔ لوگوں میں جان پہچان پیدا کریں اور ان کے کام دیکھیں۔ زمین اور مٹی کو جانچیں اور دیکھیں کہ خالقِ کائنات نے کیسی قدرت سے مخلوقات پیدا کی ہیں۔ اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے عجائبات پر غور کریں اور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرتا ہے۔ محنت ہی
[1] الطبقات لا بن سعد:4؍77، وحلیۃ الأولیاء:1؍194۔ [2] حلیۃ الأولیاء:1؍194، و السیرۃ النبویۃ لابن ھشام:1؍237۔