کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 29
درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کے ماتھوں، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا:) یہ ہے وہ (مال) جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، لہٰذا (اب اس کا مزہ) چکھو جو تم جمع کرتے رہے تھے۔‘‘ [1] ایک اور آدمی انھیں ملا۔ سلمان رضی اللہ عنہ اس کا بھی محاسبہ کرنے لگے، وہ بہانے کے ذریعے اس کے خیمے میں جا کر عبادت کرتے۔ انھیں اس آدمی کے اندر کوئی منکر یا معیوب بات نظر نہ آئی، چنانچہ اس کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا ہو گیا۔ دونوں اکٹھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے حتی کہ اس کی بھی موت کا وقت قریب آ گیا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اس پادری کے قریب ہو کر کہا: حضرت! میں آپ کے ساتھ رہا اور جتنی محبت آپ سے کرتا ہوں کسی سے نہیں کرتا۔ اب آپ لبِ مرگ ہیں۔ آپ مجھے کیا وصیت کرتے ہیں، کیا حکم دیتے ہیں اور کہاں جانے کو کہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’میرے بیٹے! اللہ کی قسم! آج میں کسی ایسے آدمی کونہیں جانتا جو اس دین پر ہو جس پر میں ہوں، لوگ ہلاک ہو گئے ہیں، بدل چکے ہیں اور اپنے دین کی اکثر باتوں کو ترک کر چکے ہیں، ہاں! صرف ایک آدمی اس وقت اس دین پر ہے جس پر میں ہوں، وہ آدمی موصل میں ہے، تم وہاں چلے جاؤ۔‘‘ [2] صرف ایک آدمی، وہ بھی موصل میں۔ سبحان اللہ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے۔ حق پر قائم رہنے والے ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں اور وہ بھی سمندر کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ سمندر کی گہرائیوں
[1] التوبۃ9: 34۔ 35 [2] حلیۃ الأولیا:1؍193، ومسند أحمد:5؍441۔