کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 27
لا رہا ہے۔ اس کی عقل نے اس کی راہنمائی کی ہے کہ یہ آگ جس کے سامنے وہ کئی کئی دن اور راتیں بیٹھا رہتا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہے کیونکہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حق کی تلاش کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کرنے کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کر دیا، ہمیشہ مسافروں اور تجارتی قافلوں کے انتظار میں رہنے لگے۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں: آخر کار وہ موقع آگیا۔ ایک قافلہ شام کی طرف جا رہا تھا۔ پس میں نے اپنے پاؤں میں پڑی بیڑیاں اتار دیں جو میرے والد نے ڈالی تھیں اور میں قافلے کے ساتھ مل کر شام پہنچ گیا۔ میں نے لوگوں سے اس دین (عیسائیت) کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ گرجا گھر میں موجود ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا: ’’میں اس دین کو پسند کرتا ہوں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ رہوں، میں آپ کی خدمت بھی کروں گا، دین بھی سیکھوں گا اور عبادت بھی کروں گا۔‘‘ اس نے کہا: ’’ اندر آ جاؤ۔‘‘ چنانچہ میں اندر داخل ہو گیا۔ یہ پادری ایک بے عمل اور برا آدمی تھا۔ لوگوں کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا۔ اور جب وہ صدقہ خیرات جمع کر کے لاتے تو یہ اسے اپنے پاس محفوظ کر کے رکھ لیتا، مساکین اور غرباء کو کچھ نہ دیتا۔ اس طرح اس نے سونے اور چاندی کے سات مٹکے بھر لیے تھے۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ اس کے ایسا کرنے پر مجھے شدید غصہ آتا تھا، یوں مجھے اس سے نفرت ہونے لگی، پھر وہ مر گیا۔ [1]
[1] السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام:1؍235۔